آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ اور محبوب ترین اذکار
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جن اذکار کے بارہ میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ اللہ رب العالمین اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہیں وہ یہ ہیں:
❀ سُبْحَانَ اللهِ
❀ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ
❀ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
❀ اَللهُ أَكْبَرُ
❀ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أحب الكلام إلى الله أربع: سبحان الله ، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر»
صحیح مسلم، رقم: 2137 .
”چار کلمات ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہیں جو کہ یہ ہیں: سُبْحَانَ اللهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ۔ “
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لأن أقول سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر أحب إلى مما طلعت عليه الشمس»
صحیح مسلم، رقم: 2695۔
سُبْحَانَ اللهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ جیسے کلمات سے اللہ کا ذکر کرنا مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔“
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ألا أدلك على كلمة من تحت العرش ، من كنز الجنة؟ تقول: لا حول ولا قوة إلا بالله، فيقول الله عز وجل: أسلم عبدي واستسلم»
مستدرك الحاكم، رقم: 622۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اے ابوہریرہ کیا میں تجھے ایسا کلمہ نہ سکھلاؤں جو عرش اور جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ پھر بتلایا کہ وہ کلمہ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ہے اور جب بندہ یہ کلمہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری عظمت اور کبریائی کا اعتراف بھی کرلیا اور اپنے آپ کو میرا تابعدار بھی بنالیا ہے۔“
اور یہ کلمات جس طرح کی روحانی تربیت اور تعلق باللہ کا تقاضا کرتے ہیں اس تربیت کو زندگی کا نصب العین تسلیم کیا گیا ہے۔
ذیل میں مذکورہ بالا کلمات کا ترجمہ وتفصیل بیان کی جاتی ہے اور یہ کلمات جس طرح کی روحانی تربیت پر مشتمل ہیں اس کی وضاحت کی جاتی ہے، لہذا ان کلمات کو ان کے معنی ومفہوم کے ساتھ اپنے ذہن میں پختہ کریں اور اس کے مطابق جہاں جہاں اور جب جب پڑھنا مقصود ہو مکمل توجہ اور حد درجہ عقیدت و محبت سے پڑھیں کہ آپ اپنے اللہ رب العزت سے محو گفتگو ہیں۔

سبحان الله

یہ ذکر الہی کا سب سے بڑا کلمہ ہے، جس کا ہمارے معاشرہ میں عموماً سادہ اور مجمل سا معنی ان الفاظ سے بیان کیا جاتا ہے کہ: ”اے اللہ تو پاک ہے“ لیکن اس پاکیزگی کی تفصیلات میں جانے کی کچھ زیادہ زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سبحان اللہ کا وسیع ترین مفہوم جس طرح کی چند بڑی بڑی شقوں میں سمیٹا جاسکتا ہے وہ اس طرح ہیں کہ سبحان اللہ کہنے والا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ: اے اللہ ! میرا اس بات پہ پختہ ایمان ویقین ہے کہ:
تیری ذات ہر عیب نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ‎﴿١٨٠﴾‏
(37-الصافات: 180)
”پاک ہے تیرا رب، عزت کا رب، ان باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ “
اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:
﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ‎﴿٤٣﴾‏
(17-الإسراء: 43)
”وہ پاک ہے، اور وہ (مشرک) جو کچھ کہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اعلیٰ و بلند تر ہے۔ “
اور تو اس وسیع و عریض کائنات کا نظام بنانے میں بھی اور اسے انتہائی خوبصورت انداز سے چلانے میں بھی ہر شریک کی شراکت سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ‎﴿٢٢﴾‏
(21-الأنبياء: 22)
”اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور یہ دونوں تباہ ہو جاتے ، چنانچہ اللہ، عرش کا رب ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔ “
اور تیری پیدا کردہ ہر چیز فضول پن اور بے مقصدیت سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿١٩١﴾‏
(3-آل عمران: 191)
”جو لوگ کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں: ) اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“
اور تیری قضاء اور تقدیر کا ہر فیصلہ ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٨٧﴾
(21-الأنبياء: 87)
”تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے، بلاشبہ میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔“
اور تیری شریعت کا ہر حکم غلطی وسہو سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ‎﴿١٥﴾‏
(32-السجدة: 15)
”ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔“
اور ساری کائنات تیری محتاج ہے لیکن تو ہر لحاظ سے ہر کسی کی محتاجی سے بے نیاز ، اور ہر طرح کی ضرورتوں اور حاجتوں سے پاک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ‎﴿٤٠﴾
(30-الروم: 40)
”اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر اس نے تمھیں رزق دیا، پھر وہ تمھیں مارے گا، پھر وہ تمھیں زندہ کرے گا، کیا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان (کاموں) میں سے کچھ کر سکے؟ اللہ ان کے شریک ٹھہرانے سے پاک اور اعلیٰ ہے۔“
حضرات! یہ چند بڑی سرخیاں تھیں جن میں سبحان اللہ کے وسیع ترین مفہوم کے کچھ حصے کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لہذا آپ پر یہ فرض ہے کہ سبحان اللہ کہتے وقت مذکورہ شقوں کو ذہن میں ضرور رکھیں اور اس کی روشنی میں اپنے عقیدہ توحید کو مضبوط بنائیں اور اپنے تعلق باللہ کی تربیت میں نکھار پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ انسان کے لیے یہی وہ متاع عزیز ہے جو دنیا و آخرت میں اس کے کام آنے والی ہے اور یہ بھی مت بھولیں کہ سبحان اللہ صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ ساری مخلوقات اور کائنات کی ہر چیز عقیدہ تسبیح یہ ہی اپنا وقت گزار رہی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ‎﴿١﴾‏
(62-الجمعة: 1)
”اللہ کا پاک ہونا بیان کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، (جو) بادشاہ ہے، بہت پاک ہے، سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔ “

الحمد لله

یہ ذکر الہی کا دوسرا بڑا کلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ تو حید ربوبیت اور شکر الہی کا سب سے بڑا خزانہ بھی ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں الحمد للہ کے وسیع ترین مفہوم کو جن شقوں میں بیان کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہیں:
اے اللہ ! میرا اس بات پہ پختہ ایمان ویقین ہے کہ:
ہر طرح کی حمد و ثناء اور تعریفات کے لائق صرف تو ہی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ‎﴿١﴾‏
(1-الفاتحة: 1)
”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “
اور مجھ پر جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ ساری کی ساری صرف اور صرف تیری ہی عطا کردہ ہیں کسی اور کی نہیں ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:
﴿وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ ‎﴿٥٣﴾‏
(16-النحل: 53)
”اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ تو اللہ ہی کی طرف سے ہے، پھر جب تمھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے تم آہ وفغاں کرتے ہو۔ “
اور ان سب نعمتوں پر شکر کا حق دار بھی میں تجھے ہی سمجھتا ہوں کسی اور کو نہیں ۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴿٣٤﴾‏
(35-فاطر: 34)
”اور وہ کہیں گے سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بے شک ہمارا رب یقیناً بے حد بخشنے والا ، نہایت قدر دان ہے۔ “
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴿١١٤﴾‏
(16-النحل: 114)
”چنانچہ اس میں سے کھاؤ (پیو) جواللہ نے تمھیں حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اور اگر تم واقعی اسی کی عبادت کرتے ہو تو اللہ کی نعمت کا شکر کرو۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے وقت اپنے رب کی نعمتوں کا شکریہ ان خوبصورت کلمات سے ادا کر کے سوتے:
«الحمد لله الذى كفاني وآواني، وأطعمني وسقاني، والذي من على فأفضل ، والذي أعطاني فأجزل، الحمد لله على كل حال»
سنن أبى داؤد، ابواب النوم، رقم: 5058 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
”میں اپنے اللہ کا اس بات پہ بے حد شکر گزار ہوں کہ دن بھر مجھے جتنی بھی ضرورتیں پیش آئیں اس نے وہ ساری کی ساری پوری کر دیں اور جب رات ہوئی تو اس نے مجھے سونے کے لیے جگہ عطا فرمائی۔ اور جب بھی مجھے بھوک اور پیاس محسوس ہوئی تو اس نے میرے لیے کھانے اور پینے کا بہترین انتظام فرمایا۔ مجھ پر احسانات کیے تو میری ضرورتوں سے کہیں زیادہ کیے، مجھے دیا تو جی بھر کے دیا۔ لہذا میں اپنے اللہ کا ہر حال میں بے حد شکر گزار ہوں۔“
اور یہ بات بھی ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ شکر صرف زبانی کلامی اعتراف نعمت کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی شکر یہ ہے کہ اعتراف نعمت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کی اطاعت میں تو بھر پور استعمال کیا جائے لیکن اس کی نافرمانی میں استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

لا اله الا الله

یہ ذکر الہی کا تیسرا بڑا کلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے اولین شرط بھی ہے، کفر و شرک اور نفاق و بدعت کی نجاست سے طہارت و پاکیزگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کلمے کو صدق دل سے اس کے مضمون اور معنی پر ایمان نہ لایا جائے ، اور کچی نیت اور ارادے سے اس کے احکامات پر عمل نہ کیا جائے۔ اس مبارک کلمہ کے ترجمہ میں لفظ ”اله“ مرکزی حیثیت کا حامل ہے، قرآنی استعمال میں لفظ ”اله“ معبود، حاجت روا اور اطاعت کے لائق کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لہذا لا إِلهَ إِلَّا الله کا معنی اس طرح کیا جائے گا: اے اللہ ! میرا اس بات پہ پختہ ایمان ویقین ہے کہ: ہر طرح کی عبادت کے لائق صرف تو ہی ہے کوئی اور نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ‎﴿٢٥﴾‏
(21-الأنبياء: 25)
”اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں ، لہذا تم میری ہی عبادت کرو۔“
اور ہر طرح کی اطاعت اور تابعداری کے لائق بھی صرف تو ہی ہے کوئی اور نہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ‎﴿١٠٦﴾
(6-الأنعام: 106)
” (اے نبی!) آپ اس وحی کی پیروی کریں جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے (نازل) کی جاتی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور مشرکین کی طرف دھیان نہ دیں۔“
اور ہر طرح کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے قابل بھی صرف تو ہی ہے کوئی اور نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏
(27-النمل: 62)
” (کیا یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ (اللہ ) جو مجبور و لا چار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور وہ اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے، اور وہ تمھیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے؟ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ “
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ”اے پروردگار! مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تجھے یاد کروں اور تجھے پکاروں۔ “
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ ! کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ .
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ”اے اللہ! یہ تو تیرے تمام بندے کہتے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہہ۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ”مجھے کوئی خصوصی چیز سکھاؤ۔“
فرمایا: ”اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں، ان کے اندر تمام چیزوں سمیت ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یہ اکیلا ان سے وزنی ہو جائے گا۔“
صحیح ابن حبان: 35/8، رقم: 6158۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔

الله أكبر

اور یہ ذکر الہی کا چوتھا بڑا کلمہ ہے جو مومن کے دل میں رب کائنات کا جاہ و جلال پیدا کرنے میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے، جس کا معنی یہ ہے: اے اللہ ! میرا اس بات پہ پختہ ایمان ویقین ہے کہ:
تیری ذات بہت بڑی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ‎﴿٦٢﴾‏
(22-الحج: 62)
”اور بلاشبہ اللہ ہی بلند تر ، بہت بڑا ہے۔ “
اور سب سے بڑی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ﴾‏
(2-البقرة: 185)
”اور اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی۔“
ہر لحاظ سے بڑی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
‎﴿‏ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ‎﴿١١١﴾‏
(17-الإسراء: 111)
”اور کہہ دیجیے: ساری حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے (اپنے لیے) کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ بادشاہی میں اس کے لیے کوئی شریک ہے اور نہ اسے ناتوانی (کمزوری) کی وجہ سے کوئی حمایتی درکار ہے اور آپ اس (اللہ ) کی بڑائی بیان کریں، کمال درجے کی بڑائی۔ “
اور تیرے مقابلے میں تیری ساری مخلوق کی حیثیت بہت چھوٹی اور بہت کمزور ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿٣٧﴾‏
(45-الجاثية: 37)
اور اسی کے لیے آسمانوں اور زمین میں سب بڑائی ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“

لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

اور یہ ذکر الہی کا پانچواں بڑا کلمہ ہے جس کا معنی یہ ہے: اے اللہ! میرا اس بات پہ بھی راسخ ایمان ہے کہ:
❀ نیکی یا خیر نام کی کوئی بھی چیز میں اپنے رب کی توفیق کے بغیر صرف اپنی طاقت سے حاصل نہیں کر سکتا ہوں ۔
❀ برائی یا شر نام کی کسی بھی چیز سے اپنے عالی المرتبت اور عظیم رب کی توفیق کے بغیر میں اپنی طاقت سے بچ نہیں سکتا ہوں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ألا أدلك على كلمة من تحت العرش ، من كنز الجنة؟ تقول: لا حول ولا قوة إلا بالله ، فيقول الله عز وجل: أسلم عبدي واستسلم»
مستدرك الحاكم، رقم: 622۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اے ابوہریرہ کیا میں تجھے ایسا کلمہ نہ سکھلاؤں جو عرش اور جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ پھر بتلایا کہ وہ کلمہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ہے اور جب بندہ یہ کلمہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری عظمت اور کبریائی کا اعتراف بھی کرلیا اور اپنے آپ کو میرا تابعدار بھی بنالیا ہے۔“

مَا شَاءَ اللهُ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله

یہ کلمہ معنی اور تربیتی مقاصد اور اثرات کے لحاظ سے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ہی متبادل ہے اور اس کلمہ کو اس وقت ادا کیا جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہا ہوتا ہے اور اس کا معنی یہ ہے اللہ ! میرا اس بات پہ پختہ ایمان ہے کہ: یہ نعمتیں جو میں دیکھ رہا ہوں یہ تیری ہی عطا کردہ ہیں، اگر تو مجھے عطا نہ کرتا تو میں اپنی طاقت سے ہرگز انہیں حاصل نہ کر سکتا تھا۔
اور قرآن پاک میں ہے:
‎﴿وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا ‎﴿٣٩﴾‏
(18-الكهف:39)
”اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا: ماشاء اللہ ، لاقوۃ الا باللہ (جو اللہ نے چاہا، کوئی قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے )؟ اگر تو مجھے مال اور اولاد میں کمتر دیکھتا ہے۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے