آمین بالجہر کے بارے میں 2 صحیح دلائل اور وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد: 1، کتاب الصلاة، صفحہ: 333

سوال

آمین بالجہر (بلند آواز سے آمین کہنا) کے بارے میں جب دیوبندی علماء سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس دور میں لوگ نماز کے بعد فوراً بھاگ جاتے تھے، اس لیے آمین کہنے کا حکم دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ کون نماز پڑھ رہا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
(سائل: حاجی نذیر خان، دامان حضرو)

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر کے بارے میں حقیقت

دیوبندی علماء کی طرف سے بیان کی گئی یہ بات کہ "آمین اس لیے کہی جاتی تھی تاکہ پتا چلے کون نماز پڑھ رہا ہے کیونکہ لوگ بھاگ جاتے تھے”، بالکل جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ:

آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین کہنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔

دلائلِ حدیثیہ

➊ حدیثِ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ:
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

"فَجَهَرَ بِآمِينَ”
"پس آپ ﷺ نے آمین بلند آواز سے کہی۔”
(سنن ابی داؤد: 933، وسندہ حسن)

➋ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا عمل:
سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدی اس طرح بلند آواز سے آمین کہتے تھے کہ مسجد میں آمین کی آواز بلند ہوتی تھی۔

اس حوالے سے تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے:
(صحیح بخاری، قبل حدیث 780)

صحابہ کرام کا طرزِ عمل

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آمین کہہ کر نماز سے بھاگنے والے لوگ نہیں تھے۔

یہ نظریہ محض بے بنیاد اور خلافِ حقیقت ہے۔

مزید تفصیل کے لیے

مزید تحقیق اور دلائل کے لیے راقم کی تصنیف "القول المتین فی الجہر بالتامین”(الحدیث: 61) کا مطالعہ مفید رہے گا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1