سترہویں صدی میں آزادی کا تصور
آزادی بحیثیت ایک سماجی تصور سترہویں صدی میں یورپ میں پروان چڑھا۔ اس کا مطلب نفس امارہ کی غلامی تھا، جس میں انسان اپنی خواہشات، حرص، شہوت اور غضب کے تابع ہو جاتا ہے۔ امانویل کانٹ کے مطابق، ایک آزاد فرد خود کفیل ہوتا ہے اور کسی الہامی ہدایت کو قبول کرنے کے بجائے اپنی نفس کی مرضی کو ہی ہدایت سمجھتا ہے۔ یہ طرزِ فکر "لا الہ الا انسان” کے تصور کو فروغ دیتا ہے، جسے "جاہلیتِ خالصہ” کہا جاتا ہے۔ یہی سرمایہ داری کی روحانیت ہے۔
سرمایہ: نفس امارہ کی عملی شکل
سرمایہ نفس امارہ کے احکامات کی عملی شکل ہے اور انسان کی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ مخصوص انفرادیت پیدا کرتا ہے جسے سٹیزن شپ کہتے ہیں۔
- سٹیزن اپنی ریپبلک کے ذریعے قانون سازی کرتا ہے، تاکہ سرمایہ اور خواہشات کی حکمرانی کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔
- انسانی حقوق کا نظام، سرمایہ دارانہ ریاست کے قیام، استحکام اور نفاذ کے لیے اہم ہے۔
انسانی حقوق کا تصور اور سرمایہ دارانہ ملکیت
انسانی حقوق (ہیومن رائٹس) کا تصور بھی سترہویں صدی میں یورپ میں ابھرا۔
- ژاں ژاک روسو اور جان لاک اس کے اہم مفکرین تھے۔
- لاک کے مطابق، انسانی جسم کی ملکیت انسان کے پاس ہے اور اس کا مقصد پیداواری عمل میں حصہ لینا ہے۔
لاک نے ملکیت کو تین اقسام میں تقسیم کیا:
- جان
- مال
- رائے
ان تینوں کا واحد معقول مقصد سرمایہ بڑھانا ہے۔ جو شخص اپنی جان، مال اور رائے کو سرمایہ بڑھانے کے لیے استعمال نہ کرے، وہ سرمایہ دارانہ ریاست کی نظر میں ہیومن بینگ (انسان) کہلانے کا مستحق نہیں۔ یہی تصور امریکہ میں قدیم باشندوں کے قتل اور براعظم کی لوٹ مار کا جواز بنا۔
آزادی اظہارِ رائے اور مذہب دشمنی
آزادی اظہارِ رائے سرمایہ دارانہ ریاست میں وہ ہتھیار تھا جس کے ذریعے یورپ میں مذہبی ریاستی نظام کو ختم کیا گیا۔
- فرانس، برطانیہ، اور امریکہ میں اس کا استعمال مذہبی اقتدار کے خاتمے کے لیے کیا گیا۔
- امریکی دستور کے معماروں جیسے جیفرسن، ہیملٹن، اور میڈیسن نے اس تصور کی حمایت کی، تاکہ ریاست کو مذہب سے آزاد کیا جا سکے۔
مقصد:
آزادی اظہارِ رائے کا مقصد معاشرت کو اطاعتِ الٰہی سے محروم کرنا تھا، تاکہ تمام اجتماعی معاملات نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق طے ہوں۔
فرانسیسی انقلاب اسی عمل کی مثال ہے، جہاں مذہبی احکامات کی تردید آزادی اظہارِ رائے کے تحت کی گئی۔
معاشرتی زوال اور آزادی اظہارِ رائے
آزادی اظہارِ رائے کے ذریعے جو معاشرت قائم ہوتی ہے، وہ نفس پرستی، شہوت، اور غضب کا شکار ہو جاتی ہے۔
- سرکاری سرپرستی میں فحاشی، حرام خوری، اور مکاری پروان چڑھتی ہیں۔
- میڈیا اور تفریحی صنعت کو سرمایہ بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔
جاہلی علم (جدید سائنس اور سوشل سائنسز) کا یہ بنیادی نظریہ ہوتا ہے کہ حقیقت کا تعین صرف تجربے اور رائے سے ہوتا ہے، اور حقیقت بدلتی رہتی ہے۔
پاپر کے مطابق:
"حقیقت وہی ہے جسے جھٹلایا جا سکے۔”
یہی وجہ ہے کہ آزادی اظہارِ رائے کے تحت سرمایہ دارانہ معاشرت میں اخلاقی گراوٹ اور بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے۔
نتیجہ:
آزادی اور سرمایہ داری کے یہ تصورات معاشرتی تباہی اور دینی اقدار کے زوال کا سبب بنتے ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا:
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم