مضمون کے اہم نکات:
● اذان واقامت
◈ اذان کی فضیلت :
❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾
﴿حم السجده : ٣٣﴾
’’اور اس آدمی سے زیادہ اچھی بات والا کون ہو سکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ۔‘‘
’’مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت کے مصداق سب سے پہلے انبیائے کرام ہیں، پھر علماء ، پھر مجاہدین، پھر اذان دینے والے اور پھر تو حید خالص اور قرآن وسنت کی دعوت دینے والے۔‘‘
صحیح مسلم ، کتاب الطهارة ، رقم: ۲۷۷۔
﴿تيسير الرحمن : ١٣٤٣/٢﴾
❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿المؤذنون أطول أعناقا يوم القيامة .﴾
صحیح مسلم ، كتاب الصلاة ، رقم: ۳۸۷۔
’’قیامت کے روز اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی (یعنی وہ اللہ کا نام بلند کرنے کی وجہ سے مرتبے میں سب سے اونچے ہوں گے)‘‘
❀ اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مؤذن کو بلند آواز سے اذان دینے کی وجہ سے بخش دیا جاتا ہے، اور جو بھی تر یا خشک چیز اس کی آواز سنتی ہے وہ (قیامت کے دن) اس کے لیے گواہی دے گی اور اس کے لیے ان لوگوں کے ثواب کے برابر ثواب ہے جو اس کی اذان سن کر نماز کے لیے آتے ہیں ۔‘‘
سنن نسائی ، کتاب الاذان، رقم : ٦٤٧ – صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم : ٦٠٩.
سید نا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کو ہدایت نصیب فرما اور موذنوں کو بخش دے۔‘‘
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ۲۰۷- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
آپ کا رب بکریوں کے اُس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر اذان کہتا اور نماز پڑھتا ہے۔ پس اللہ عز وجل فرماتا ہے:
’’میرے اس بندے کو دیکھو ، مجھ سے ڈر کر اذان کہہ رہا ہے اور نماز پڑھ رہا ہے۔ میں نے اسے بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا ۔‘‘
سنن ابوداؤد، تشریع صلاة السفر، رقم: ۱۲۰۳- سنن نسائی ، کتاب الأذان، رقم: ٦٦٦- إرواء الغليل، رقم: ٢١٤ – سلسلة الصحيحة، رقم: ٤١.
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ( خیر و برکت ) ہے تو پھر وہ اذان اور پہلی صف کو قرعہ اندازی کے علاوہ حاصل نہ کر سکیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں گے۔ اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ عشاء اور صبح کی نماز با جماعت ادا کرنے میں کیا خیر و برکت ہے تو ان دونوں نمازوں میں حاضر ہوں اگر چہ انہیں گھسٹ کر آنا پڑے ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم: ٦١٥- صحيح مسلم، رقم: ٤٣٧۔
◈ اذان کے کلمات ، پس منظر اور طریقہ:
عبداللہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ناقوس بنانے کا کہا تا کہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیا جا سکے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ناقوس اُٹھائے میرے پاس سے گزر رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا:
اے اللہ کے بندے! کیا تو ناقوس بیچنا چاہتا ہے؟ اس نے پوچھا:
تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا:
ہم اس کے ذریعے سے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے تو اس نے کہا:
کیا میں تمہیں وہ طریقہ نہ بتادوں جو اس سے بہتر ہے؟ میں نے کہا:
کیوں نہیں ! تو اس نے کہا تم کہو :
اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ .
اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ .
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ، أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله .
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ .
حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ ، حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ .
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ .
اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ .
لا إلهَ إِلَّا الله .
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم: ٤٩٩- سنن ابن ماجه ، كتاب الأذان، رقم: ٦- مسند احمد: ٠٤٣٠٤٢/٤ إرواء الغليل : ٢٦٥٠٢٦٤/١- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف ، آؤ نماز کی طرف۔ آؤ کامیابی کی طرف ، آؤ کامیابی کی طرف۔ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
پھر وہ مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹا، اور بولا کہ جب تم نماز کے لیے اقامت کہو تو یوں کہو :
﴿الله أكبر الله أكبر ، أشهد أن لا إله إلا الله ، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح ، قد قامت الصلاة ، قد قامت الصلاة ، الله أكبر الله أكبر ، لا إله إلا الله .﴾
جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ، اور جو میں نے دیکھا تھا ، وہ آپ کو بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’بلا شبہ ان شاء اللہ یہ سچا خواب ہے ۔ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو تم نے دیکھا ہے، اسے بتاتے جاؤ تا کہ وہ انہی الفاظ سے اذان کہے کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہے۔‘‘
چنانچہ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں بتاتا گیا اور وہ اذان کہتے تھے۔ عبداللہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ یہ ندا عمر بن خطابؓ نے اپنے گھر میں سنی تو وہ بھی اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آگئے اور کہنے لگے:
اے اللہ کے رسول ! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا جو انہوں نے دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿فَلِلَّهِ الْحَمْدُ .﴾
◈ فجر کی اذان میں ’’الصلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ‘‘ کہنے کی مشروعیت:
فجر کی اذان میں ﴿حَيَّ عَلَى الْفَلَاح﴾ کے بعد دوبار یہ کلمات بھی کہیں :
﴿الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ ، الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ .﴾
’’نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘
سید نا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اذانِ فجر میں موذن ﴿حی عَلَى الْفَلاح﴾ کے بعد ﴿الصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ﴾ کہے۔
سنن الدار قطني: ٠٢٤٣/١ – السنن الكبرى للبيهقي : ٤٢٣/١- صحيح ابن خزيمة: ۲۰۲/۱ رقم: ١٣٨٦ ۔ ابن خزیمہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نعیم بن الخامؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے نماز صبح کے لیے اذان کہتے ہوئے کہا:
﴿الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ﴾
الكبرىٰ للبيهقي : ٤٢٣/١.
ابو محذورہ رضی اللہ کی حدیث میں ہے : پس اگر اذان نماز فجر ہو تو تم کہو :
﴿الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ﴾
سنن ،ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٥٠٠. محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ فجر کی پہلی اذان میں ﴿حَيَّ عَلَی الْفَلاح﴾ کے بعد ﴿الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ﴾ دو بار کہا جاتا تھا۔
السنن الكبرى للبيهقي : ٤٢٣/١- شرح معانی الآثار: ۱۳۷/۱- تمام السنة ، ص : ١٤٦ – سبل السلام : ۱۲۰/۱ ۔ حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
↰ فوائد:
➊ اس حدیث میں اذان اول سے مراد، اذانِ فجر ہے اور اسے الاول اقامت کے مقابلے میں کہا گیا ہے، کیوں کہ اقامت کو بھی اذان کہا جاتا ہے۔
➋ یہ کہنا کہ ﴿الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ﴾ کلمات سید نا عمر بن خطابؓ کی ایجاد ہیں فخش غلطی ہے۔
◈ اقامت کے طاق کلمات :
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ.
أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا الله .
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ .
حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ .
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ .
قَدْ قَامَتِ الصَّلوةُ ، قَدْ قَامَتِ الصَّلوة .
اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ.
لا إله إلا الله .
سنن ابو داؤد، کتاب الصلواة ، رقم: ٤٩٩ سنن ابن ماجه ، رقم : ٧٠٦۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کیا ہے۔
↰ نوٹ:
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، انہوں نے کہا:
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار اور تکبیر کے کلمات ایک ایک بار تھے ،سوائے اس کے کہ اقامت کہنے والا ﴿قَدْ قَامَتِ الصَّلوةُ﴾ دو بار کہتا تھا۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ۵۱۰- سنن دارمی : ۲۷۰/۱- مستدرک حاکم: ۱۹۷/۱- ذہبی اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
◈ دوہری اذان:
دوہری ’’ترجیع والی‘‘ اذان میں شہادتین والے کلمات پہلے دھیمی آواز میں کہے جائیں اور پھر دوبارہ بلند آواز سے کہے جائیں گے، یعنی مؤذن پہلی مرتبہ آہستہ آواز میں کہے:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله (دومرتبہ)
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ (دو مرتبہ)
اور پھر دوسری دفعہ بآواز بلند کہے:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله (دو مرتب)
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا ر سُولُ اللَّهِ (دومرتب)
باقی الفاظ عام اذان والے ہیں۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلوة ، رقم: ۵۰۲ سنن ترمذی، ابواب الصلوة، رقم : ١٩٢ – سنن نسائی، رقم: ٦۳۲ صحیح مسلم، كتاب الصلوة ، رقم: ٣٧٩.
◈ دوہری اقامت:
دو ہری اقامت میں مندرجہ ذیل کلمات ہیں:
اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ، أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ
حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ ، حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ
قَدْ قَامَتِ الصَّلوةَ ، قَدْ قَامَتِ الصَّلوةَ
اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ
لا إلهَ إِلَّا الله
سید نا ابو محذورہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اذان کے انیس اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے ۔
◈ اذان کا جواب دینا:
سید نا عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب مؤذن کہے:
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ .
پس تم بھی کہو :
الله اكبر ، اللهُ أَكْبَرُ .
پھر جب مؤذن کہے:
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله .
تم بھی کہو :
أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله .
پھر جب مؤذن کہے:
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ.
تم بھی کہو :
أشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ.
پھر جب مؤذن کہے:
حَيَّ عَلَى الصَّلَوةِ.
تو تم کہو :
لا حول ولا قوة إلا بالله.
سنن ابو داؤد، کتاب الصلوٰة ، رقم: ۲-۵ ۔ رقم: ٦٣٢ ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے
پھر جب مؤذن کہے:
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ .
تو تم کہو:
لا حول ولا قوة إلا بالله
پھر جب مؤذن کہے:
الله اكبر الله أكبر.
تو تم کہو:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ.
پھر جب مؤذن کہے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ .
تو تم کہو:
لَا إِلَهَ إِلَّا الله .
’’جو شخص اپنے صدق دل سے مؤذن کے کلمات کا جواب دے گا تو جنت میں داخل ہو جائے گا۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلوة، رقم : ٣٨٥ .
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص مؤذن کے شہادتین کے کلمات ادا کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے، اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے:
﴿وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأن محمدا عبده ورسوله ، رضيت بالله ربا و بمحمد رسولا وبالإسلام دينا .﴾
صحیح ابن خزیمه ۲۲۰/۱، رقم: ٤۲۲ – سنن الكبرى للبيهقی: ٤١٠/١ – ابن خزیمہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور بے شک محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ میں راضی ہوں اللہ کے رب ہونے پر محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر ۔
◈ اذان کے بعد کی دعائیں:
❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم مؤذن کی اذان سنو ، تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود پڑھو، جس نے مجھ پر درود پڑھا ، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا، پھر میرے لیے اللہ سے مقام وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ جس نے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلاة ، رقم : ٣٨٤۔
◈ مسنون درود شریف کے کلمات :
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.
اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد .
صحيح بخاری ، كتاب الأنبياء ، رقم: ٣٣٧٠۔
’’اے اللہ ! رحمت بھیج محمد (ﷺ) اور آل محمد (ﷺ) پر جیسے رحمت بھیجی تو نے ابراہیمؑ اور آل ابراہیمؑ پر ، بے شک تو تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے۔ اے اللہ ! برکت بھیج محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر جیسے برکت بھیجی تو نے ابراہیمؑ اور آل ابراہیمؑ پر ۔ بے شک تو تعریف کیا گیا ، بزرگی والا ہے۔‘‘
پھر یہ دعائے وسیلہ پڑھیں :
﴿اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا ن الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودان الذى وعدته .﴾
اے اللہ !اس کامل دعوت اور (تا قیامت) قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد نے کام کو مقام وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر فائز فرما، جس کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے۔ صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: ٦١٤. السنن الكبرى للبيهقي : ٤١٠/١، رقم: ١٩٣٣.
❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھے:
أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأن محمدا عبده ورسوله ، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا و بالإسلام دينا .
تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٣٨٦- صحيح ابن خزيمه ، رقم: ٤٢١.
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے پر محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔‘‘
◈ اذان اور اقامت کے اہم مسائل و آداب :
➊ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ اور حَيَّ عَلَى الفلاح کہتے ہوئے مؤذن کا اپنی گردن دائیں بائیں موڑ نا مستحب عمل ہے۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم : ٦٣٤ – صحيح مسلم، کتاب الصلاة ، رقم: ٥٠٣.
➋ اذان دیتے ہوئے کانوں میں انگلیاں رکھنا مستحب عمل ہے۔
سنن ترمذی ، کتاب الصلاة ، رقم: ۱۹۷ – سنن ابن ماجه، كتاب الأذان والسنة فيها، رقم : ٧١١- صحیح ابن خزیمه، رقم ۱۳۸۸۔ ابن خزیمہ اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
➌ کھڑے ہو کر اذان دینا سنت ہے۔ اور اس پر اہل علم کا اجماع بھی ہے ۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: ٦٠٤ – صحيح مسلم، کتاب الصلاة ، رقم: ۳۷۷ – الأوسط الإبن المنذر: ٢٨/٣، م: ٣٥٣.
➍ قبلہ رخ ہو کر اذان دینا مستحب ہے۔ چنانچہ امام ابن المنذ رفرماتے ہیں :
’’اہل علم کا اجماع ہے کہ قبلہ رخ ہو کر اذان دینا سنت ہے۔‘‘
الأوسط لابن المنذر، رقم: ٠٢٨/٣م: ٣٥٣۔
➎ اذان اور اقامت کے درمیان زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرمایا :
’’اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا رد نہیں ہوگی ۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٥٢١ سنن ترمذی، رقم: ۲۱۲ صحیح ابن خزیمہ رقم:٠٤٢٦٠٤٢٥۔ ابن خزیمہ اور علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
➏ اذان ہو جانے کے بعد بغیر شرعی عذر مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔
صحيح مسلم، کتاب المساجد ، رقم: ٦٥٥.
➐ اگر شرعی عذر ہے تو اذان بلکہ اقامت کے بعد بھی مسجد سے نکلا جاسکتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب الأذان، رقم: ٠٦٤٠
➑ اذان کے جواب میں وہی کلمات دہرائے جائیں جو مؤذن کہ رہا ہے، سوائے حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور حَيَّ عَلَى الْفَلاح کے ۔ جب مؤذن یہ کلمات کہے تو سننے والا کہے لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ
صحیح بخارى، كتاب الأذان ، رقم : ٦١١ –
➒ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کے جواب میں یہی کلمات دہرائے جائیں۔ اذان کے ان کلمات سننے والوں کا ہاتھ کے انگوٹھوں کا چومنا بدعت ہے ۔
بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ص: ۲۹۷۔
➓ الصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کے جواب میں یہی کلمات کہے جائیں۔
❀ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہنا ثابت نہیں ، پس ان الفاظ کی کوئی اصل نہیں ۔
⓫ اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰةُ کے جواب میں المجموع للنووي.
⓬ اذان کے اختتام پر لا اله الا الله پڑھنے کے بعد مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ پڑھا جاتا ہے۔ یہ بدعت ہے کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔
⓭ بارش کے دن اذان میں ’’اَلصَّلوةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ يَا ’’صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ‘‘ کہا جائے ۔
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم : ٦٦٨ – صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ١٦٩٩.
◈ اذان سے قبل خود ساختہ درود پڑھنا:
بعض لوگ اذان سے پہلے خود ساختہ درود ’’الصلوة والسلام عليك يا رسول الله، وعلى آلك وأصحابك و یا حبیب اللہ‘‘ پڑھتے ہیں۔ زمانہ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے ایسے الفاظ کا ثبوت نہیں ملتا، اس کا رواج مصر کی رافضی حکومت کے زمانہ میں ہوا ہے۔
السنن والمبتدعات.
لیکن بعد میں سری آواز سے مسنون درود پڑھا جائے ، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
شیخ محمد بن عبدہ مفتی مصر سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’اذان کے کلمات پندرہ ہیں، جس کے آخر میں لا الہ الا اللہ ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں جو کلمات کہے جاتے ہیں سب نو ایجاد بدعات ہیں ۔‘‘
بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ص: ۲۹۷۔۲۹۸۔